گرما گرمی

( گَرْما گَرْمی )
{ گَر + ما + گَر + می }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'گرما' کے ساتھ فارسی اسم صفت 'گرم' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'گرما گرمی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٨ء کو "کلیات انشا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - تیزی، جوش، شدت۔
"بہار کا موسم تھا یعنی جاڑا جا چکا تھا اور ابھی گرمی کی گرما گرمی شروع نہ ہوئی تھی۔"      ( ١٩٤٠ء، حکایات لیلٰی مجنوں، ١٤ )
٢ - چہل پہل، رونق، پرتپاک استقبال، قدر و منزلت۔
"ان کی وجہ سے ہماری محفل میں اچھی خاصی گرما گرمی رہتی تھی۔"      ( ١٩٧٧ء، اقبال کی صحبت میں، ٢١٢ )
٣ - جوش و خروش، ہنگامہ خیزی۔
"کنونشن کی روئیداد کے پیچھے وہ گرما گرمی، وہ گہما گہمی، وہ دھماکہ خیزی اور وہ دھما چوکڑی بیان کرنے سے قاصر ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٧٢٨ )
٤ - تعریف و توصیف، شہرت۔
"شہزادوں نے تاج و تخت پر پامردی سے لات ماری اور توتے کی زبانی کسی شہزادی کے حسن گلوسوز کی گرما گرمی سن کر جنگل اور کوہ ہامون کی راہ لی۔"      ( ١٨٨٠ء، فسانۂ آزاد، ٣٧١:٢ )
٥ - اختلاط، پیار اور بے تکلفی، ربط ضبط۔
"ایک کے اختلاط میں پھیکا پن اور سرد مہری تھی ادھر لارڈ ایلجن صاحب وائسرائے ہند چمبے کی پہاڑی پر اپنی اس حرکت . پر نادم ہو کر یک بیک مر گئے۔"      ( ١٨٨٠ء، تواریخ عجیب، ٦٤ )