شوخی

( شوخی )
{ شو (و مجہول) + خی }
( فارسی )

تفصیلات


شوخ  شوخی

فارسی سے ماخوذ اسم صفت 'شوخ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت بڑھانے سے 'شوخی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٩٥ء کو "دیوانِ قائم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : شوخِیاں [شو (و مجہول) + خِیاں]
جمع غیر ندائی   : شوخِیوں [شو (و مجہول) + خِیوں (و مجہول)]
١ - بے باکی، گستاخی، بے حجابی۔
 بے تابی دل میں ہم سمجھے بھی تو کیا سمجھے شکوے کو ادا سمجھے شوخی کو حیا سمجھے      ( ١٩٨٧ء، بوئے رسیدہ، ٢٥١ )
٢ - شرارت، چلبلاہٹ، کھلنڈراپن۔
"مختصر سی زندگی . شوخی اور بے قراری کا شاہکار ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ٩٤ )
٣ - رنگ کی تیزی۔ (ماخوذ: نوراللغات)
٤ - [ تصوف ]  کثرتِ التفات، اللہ سے لو لگانے کا عمل۔
"شوخی . کثرتِ التفات کو کہتے ہیں کہ جو معشوق کی جناب سے ہو۔"      ( ١٩٢١ء، مصباح التعرف، ١٥٥ )
  • Playfulness
  • fun;  pertness;  wantonness;  forwardness
  • boldness