صاحب زادہ

( صاحِب زادَہ )
{ صا + حِب + زا + دَہ }

تفصیلات


عربی سے مشتق اسم 'صاحب' کے ساتھ فارسی مصدر 'زادن' سے فعل ماضی مطلق واحد غائب 'زاد' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقہ حالیہ تمام بڑھانے سے 'زادہ' ملا کر مرکب نسبتی بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ احتراما یا مطلقا ]  بیٹا، لڑکا، فرزند۔
"علامہ اقبال جب کبھی بارود خانے جاتے تو میاں صاحب، ان کے صاحب زادے . سے نہایت محبت اور احترام سے ملتے۔"      ( ١٩٧٧ء، اقبال کی صحبت میں، ٥٠٤ )
٢ - شاہی خاندان کی اولاد نرینہ کا تعظیمی خطاب۔
"ان کی اولاد کو صاحب زادہ یا صاحب زادی اور ان کے نام کو اسم مبارک . کہنا چاہیے۔"      ( ١٨٧٤ء، مجالس النساء، ٣:٢ )
٣ - ناتجربہ کار لڑکا یا نوجوان، ناسمجھ بچہ۔ (دریائے لطافت، 73)۔
  • One of genteel family
  • a young gentleman;  young master;  (in polite speech) your son;  an in experienced youth