گریباں

( گِرِیباں )
{ گِری + باں }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ فارسی سے اردو میں ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : گِرِیبانوں [گِری + با + نوں (واؤ مجہول)]
١ - لباس یا کرتے کا وہ حصہ جو گلے کے نیچے اور چھاتی کے وسط میں ہوتا ہے (اکثر تکمے دار)۔
"ان لوگوں پر حیران ہوتا ہوں جو پھولوں کے کٹے ہوئے سر اپنے گریبانوں میں سجاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٨ء، یادوں کے گلاب، ١٩٩ )
١ - گریباں پھاڑنا
گریباں چاک کرنا، گریبان ٹکڑے ٹکڑے کرنا، وحشت سے کپڑے پھاڑنا، دیوانہ ہونا۔"آپ گریباں پھاڑ کحر گھر سے نکل جاتے۔"      ( ١٩٧٩ء، ادب، کلچر اور مسائل، ١٥١ )
٢ - گریباں تار تار ہونا
گریباں ٹکڑے ٹکڑے ہونا۔ آہ دست جنوں سے اے ناصح ہے گریبان تار تار افسوس      ( ١٨٣٨ء، نصیر دہلوی، چمنستان سخن، ٧٩ )
٣ - گریباں چاک چاک کرنا
گریباں ٹکڑے ٹکڑے کرنا ،گریبان تار تار کرنا۔ کیوں کر نہ چاک چاک گریبان دل کروں دیکھوں ہوں تیری زلف کو میں دست شانے میں      ( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ١٢١:١ )
٤ - گریباں میں جھانک کر (دیکھنا | جھانکنا)
اپنے اعمال کا محاسبہ، شرم سے گردن نیچی کر لینا۔"اس نے میز کے کنارے کو انگلیوں سے ہتھیلیوں میں نچوڑتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا۔"      ( ١٩٦٥ء، چوراہا، ٣٧ )