گل زار

( گُل زار )
{ گُل + زار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'گل' کے ساتھ 'زار' بطور لاحقۂ ظرفیت لگانے سے مرکب 'گل زار' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٤٦ء کو "قصۂ مہر افروز دلبر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ جگہ جہاں کھلے ہوئے پھولوں کی بہتات ہو، گلستان، چمن، گلشن۔
 وہ چلے راہ محبت میں تو گل زار کھلے ہم چلے راہ محبت میں تو پتھر ابھرے      ( ١٩٨٦ء، غبار ماہ، ٨٨ )
٢ - [ مجازا ]  چہل پہل کی جگہ، پررونق جگہ، بارونق جگہ۔
 یار ہے مجکو نشیمن، گلستان مجکو عزیز ہر قفس میں قصۂ گلزار دینے دیجیے      ( ١٩٨٨ء، مرج البحرین، ٨٨ )
٣ - اسکی صورت یہ ہے کہ بہت خفی قلم سے باریک لکیروں کے ذریعے حروف کی اس طرح حدبندی کی جاتی ہے کہ اس کا درمیانی حصہ سادہ رہے اس میں پھول بیل اور برگ و بار بنا دیئے جاتے ہیں۔"
"کتابت یا طباعت میں ان کی شکل نسخ، نستعلیق، شکست طغرا، گلزار، ماہی، غبار کچھ بھی بن سکتی ہے۔"      ( ١٩٧٢ء، نکتہ زار، ٥٩ )
  • پُھْلواری
  • A garden of roses;  a bed of roses;  a garden;  a flourishing and well-populated town.