جلوس

( جُلُوس )
{ جُلُوس }
( عربی )

تفصیلات


جلس  جَلْسَہ  جُلُوس

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠١ء میں حیدری کی "آرائش محفل" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : جُلُوسوں [جُلُو + سوں (و مجہول)]
١ - بیٹھنا
 صفا سے وہ در و دیوار باغ کا عالم کہ اشیانے میں دشوار طائروں کو جلوس      ( ١٨٨١ء، مومن، کلیات، ٢ )
٢ - [ مجازا ]  تخت نشینی، نیز تخت نشینی کا سنہ۔
"تاریخ جلوس کے جشن پر . خلعت عطا ہوتا تھا۔"      ( ١٩٢٧ء، حالات سرسید،٤ )
٣ - شاہانہ حشم، امیروں اور بادشاہوں کی سواری، سواری کے ٹھاٹھ باٹ اور کروفر۔
"وہ اس کے بعد نور کا حلّہ بہشتی پہن کر فرشتوں کے روحانی جلوس کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پیش ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٣٥٥:٣ )
٤ - ساز و سامان، ٹھاٹھ باٹ، جیسے برات وغیرہ کا جلوس۔
"جھٹپٹا وقت تھا کہ راستے میں مجھے شادی کا ایک جلوس ملا۔"      ( ١٩٢٠ء، روح ادب، ١٣٣ )
  • sitting;  accession (to a throne);  state
  • pomp