مجمع

( مَجْمَع )
{ مَج + مَع }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اردو میں داخل ہوا۔ ثلاثی مجرد کے باب سے اسم ظرف ہے۔ اردو میں ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکاں ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : مَجْمَع [مَج + مَع]
جمع   : مَجْمَع [مَج + مَع]
جمع غیر ندائی   : مَجْمَعوں [مَج + مَعوں (و مجہول)]
١ - جمع ہونے کی جگہ، مجلس، جلسہ۔
"جب ایک مجمعے میں کسی آدمی کی بے عزتی ہوتی ہے تو جو لوگ اس کی تفضیح دیکھ چکے ہیں وہ سب کو اپنا دشمن ٹھہرا لیتا ہے"۔     "حضرت جبریل اس وقت بھی آتے تھے جب آپۖ لوگوں کے مجمعے میں بیٹھے ہوتے تھے"۔      ( ١٨٧٧ء، توبۃ النصوح، ١٩٠ )( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٣١٦:٣ )
٢ - بہت سے لوگوں کا ہجوم، انبوہ، بھیڑ۔
"یکایک مجمعے میں ہلچل ہوئی اور ہزاروں آدمی کسی نامعلوم احساس سے رام ناتھ کی طرف دوڑے"۔      ( ١٩٩٦ء، افکار، کراچی، نومبر، ٥٨ )
٣ - کثرت زیادتی۔
 بارک اللہ آصفی دربار کیا دربار ہے مجمع جاہ و حشم ہے مطلع انوار ہے      ( ١٩٢٨ء، سرتاج سخن، ٤٨ )
  • A place in which people collect or assemble;  place of meeting or rendezvous;  an assembly
  • a congregation;  a collection
  • heap
  • pile;  a book of miscellanies
  • a magazine