فعل متعدی
١ - بستہ کرنا، منجمد کرنا۔
اے آہ سرد عرصۂ محشر میں میں یخ جما جلتا ہوں میں سنوں کہ جہنم ٹھٹھر گیا
( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٧٥٠ )
٢ - بٹھانا، وصل کرنا، جوڑنا۔
"بڑا خوبصورت مطلع کہا ہے ایک ایک لفظ ایسا جمایا ہے کہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔"
( ١٩٣٠ء، مضامین فرحت، ٢٠٤:٢ )
٣ - [ معماری ] ردہ رکھنا، چنائی کرنا۔
"بڑی کڑیوں کی صورت میں تو ان کو اسی طرح جمایا جائے جیسا کہ گول ناٹوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔"
( ١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ٢٣٢ )
٤ - شروع کرنا، قائم کرنا۔
"دوآب گنگ و جمن کے جدید انتظامات جماتے وقت بندھیل کھنڈ کے چندیلوں کو قابو میں لانا ضروری ہوا۔"
( ١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ١٦٦:١ )
٥ - پکا کرنا، مستحکم کرنا، رچانا۔
اڑ گیا رنگ جو مہندی کا تو کیا غم ان کو پھر جما لیں گے ابھی خون تمنا کر کے
( ١٩١٥ء، جان سخن، ١٧٠ )
٦ - ذہن نشین کرنا، جچانا۔ (فرہنگ آصفیہ)
٧ - ترتیب سے لگانا، سجا کر رکھنا، سجانا، تزئین کرنا۔
"چیزوں کو اس طرح جمانا اور سجانا کہ ہر چیز منہ سے بول اٹھے۔"
( ١٩٠٦ء، 'خاتون' علیگڑھ، جنوری، ٣٦ )
٨ - سلیقے سے یا ڈھنگ سے رکھنا۔
"اتنے اطالوی جنٹلمین نے خالی پرتھ پر اپنا اسباب جمانا شروع کیا۔"
( ١٩٣٠ء، مس عنبرین، ٢ )
٩ - (چلم میں) تمباکو یا سلفے وغیرہ کی تہ رکھنا۔
"کلنگ نظر سب کی بچا کر اس کے قریب آیا کہا بھائی جلد جماؤ ہم بھی ایک دم ماریں۔"
( ١٨٩١ء، طلسم ہوشربا، ١٧٦:٥ )
١٠ - برپا کرنا، ترتیب دینا۔
خلوت کی جمائے انجمن کو پردے میں چھپائے حاومن کو
( ١٩٠٥ء، محسن، کلیات نعت، ١٢٧ )
١١ - رونق دینا، رنگ جمانا (انجمن وغیرہ کے ساتھ)۔
پونچھیں گے اپنے یار کے دامن سے اشک سرخ عاشق ہیں ہم جمائیں گے بے زور مل کے رنگ
( ١٨٩٦ء، دیوان شرف، ١٤٢ )
١٢ - مارنا، رسید کرنا (جوتے مکے یا لات وغیرہ کے ساتھ)۔
دل وحشی کا ٹٹو اڑ گیا ہے دشت وحشت میں جماوے بڑھ کے اک سنٹا الف چاک گریباں کا
( ١٩٣٧ء، ظریف، دیوان جی، ٢:١ )
١٣ - قائم کرنا، پیوست کرنا۔
"سانس میں لفظ اللہ کو جماؤ یعنی جب سانس اندر جائے تو تمام سینے اور شکم کو اس سے بھر دو۔"
( ١٩١٢ء، سی پارۂ دل، ٩٦:١ )
١٤ - قائم رکھنا۔
"ابتداً تقلید آبائی نے مجکو اسلام پر جمائے رکھا۔"
( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ١٧٤ )
١٥ - (گھوڑا وغیرہ) ٹھہرانا، روکنا، ایک جگہ کھڑا کرنا۔
"کھیت کے گھوڑوں کا جنگل تھا فوج تھی کہ ایک بڑا شہر دنگل تھا کوئی جماتا کوئی کوداتا۔"
( ١٨٦١ء، فسانۂ عبرت، ٧٨ )
١٦ - (قدم) احتیاط سے رکھنا، (ٹھہر ٹھہر کر) چلنا۔
"حسن آرا دور کا بے گھوڑوں پر سوار . کبھی دوڑتے کبھی جماتے چلے جاتے تھے۔"
( ١٨٨٠ء، فسانہ آزاد، ١٥٩:١ )
١٧ - تدبیر کرنا،ہموار کرنا، راضی کرنا۔
"پچیس روپے تصویر اتروائی دیئے کھانا کھلایا تو اب کپڑوں کی جما رہی ہے۔"
( ١٩٢٩ء، تمغۂ شیطانی، ١٩ )
١٨ - چمکانا، جوڑنا۔
سمجھ رکھ اس کو کہ اختر سے حسن تیرا ہے اگر ستارے نہ ہوں گے جمائے گا پھر کیا
( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ١٥٣ )
١٩ - مقرر کرنا، نوکری دلوانا، نوکر رکھنا۔
"دوسرا منتظر ہے کہ کسی طرح اس کے ہاں سے اکھڑے اور میں جماؤں۔"
( ١٩٠٦ء، مخزن، جون، ٢٣ )
٢٠ - تعینات کرنا، مامور کرنا۔
"چاروں طرف نوکروں کو جما دیا کہ رستہ روکے کھڑے رہو۔"
( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ١٦٤ )
٢١ - بونا، کاشت کرنا۔
"بہت سے نئے خوش رنگ بھبھکتے ہوئے پودے اس میں جمائے ہیں۔"
( ١٩٥٣ء، ممتاز حسین جونپوری (دیوان صفی)، ٢٣ )
٢٢ - لبوں پر مسی لگانا، حنا بندی کرنا، لاکھا جمانا۔
جمائے مسی برگ سوسن تمام بسا سنبلِ تر سے گلشن تمام
( ١٨٩٠ء، کٹا۔ )
٢٣ - بٹھانا، رکھنا، پرونا۔
"بیوہ اور یتیموں کی آنکھیں قطرات شبنم کی مثل آنسوؤں کی اوس پلکوں پر جماتی ہیں۔"
( ١٩١٣ء، انتخاب توحید، ٤٨ )
٢٤ - ڈھیر لگانا، انبار کرنا۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
٢٥ - رکھنا، درست کرنا، منڈھنا، دبا کر بٹھانا۔
"اور کچھ اسباب عشرت میسر نہیں تو وہی . ٹوپی . فقیر نے عید کی خوشی میں بانکی ترچھی جمائی۔"
( ١٩٠٨ء، صلائے عام، نومبر، ٥ )
٢٦ - (بات وغیرہ) دل میں بٹھانا۔
"بادشاہ کے دل میں یہ بات جمائی کہ دبیرالدولہ انگریزوں سے سازش رکھتے ہیں۔"
( ١٨٩٦ء، سیرت فریدیہ، ٢٧ )