جمعدار

( جَمَعْدَار )
{ جَمَع + دار }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'جمع' کے ساتھ فارسی مصدر 'داشتن' سے مشتق صیغۂ امر 'دار' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے مرکب 'جمعدار' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠٢ء میں "نثر بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - فوج کا ایک چھوٹا افسر۔
"جمعدار دفعدار وغیرہ بلکہ سب سوار اور پیادے رنگین پیش ہو کر سواری کے وقت میں حاضر ہوویں۔"      ( ١٨٠٢ء، نثر بے نظیر، ١٣٨ )
٢ - خاکروب، بھنگی۔
"ایسے ہی جیسے ان کے علاقے میں بھنگی کو جمعدار اور ماشکی کو بہشتی کہتے ہیں۔"      ( ١٩٧٤ء، سیپ، کراچی، ٥٦:٢٨ )
٣ - کسی گروہ یا جماعت کا نچلے درجے کا منتظم و منصرم۔
"وہ قلعہ دولت آباد کی جمعیت کے جمعدار ہو گئے۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٠٩ )
٤ - پولیس کا سپاہی، داروغہ سے دوسرے درجہ پر۔
"ایک جمعدار ہوتا ہے جو اس قسم کے کام سواء تحریر کے تھانہ دار کی ہدایت کے موافق کرتا ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ٢٧٩ )
٥ - کسٹم ٹیکس مال گذاری وغیرہ کا کارندہ۔ (پلیٹس)
٦ - سقہ، بہشتی، ہرکارہ یا رہنما۔ (پلیٹس؛ نوراللغات)
  • اَمِیرِ جَماعَت
  • ماشکی
  • بَھنْگی
  • خاکْرُوب
  • The head of any body of men (as guides);  a native officer of the army so called;  an officer of police
  • customs or excise