صبیح

( صَبِیح )
{ صَبِیح }
( عربی )

تفصیلات


صبح  صَبِیح

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے بعینہ اردو میں داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٣٠ء کو "کلیاتِ نظیر اکبر آبادی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : صَبِیحَہ [صَبی + حَہ]
١ - گورا چٹا، سفید رنگت والا، سفید رنگ (ملیح کی ضد)
"جمیل صاحب میرے اشارات کو سمجھ گئے اور انکا صبیح چہرہ گلابی ہو گیا۔"      ( ١٩٦٢ء، گنجینۂ گوہر، ٢٣٨ )
٢ - [ مجازا ]  حسین و جمیل، خوبصورت، دلکش۔
 جیسے کوئی فرشتہ حریم سپاس میں چھیڑے صبیح نغمہ سنہرے رباب پر      ( ١٩٦٢ء، عروس فطرت، ١٤٦ )
  • Beautiful