گورا

( گورا )
{ گو (و مجہول) + را }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت اور گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٩٩ء کو "کتاب نورس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
واحد غیر ندائی   : گورے [گو (و مجہول) + رے]
جمع   : گورے [گو (و مجہول) + رے]
جمع غیر ندائی   : گوروں [گو (و مجہول) + روں (و مجہول)]
١ - اجلے، صبیح رنگ والا، سفید اجلے رنگ کا، صاف رنگت والا۔
 یہ محبت کی سلطنت ہے یہاں سانولوں کے غلام ہیں گورے    ( ١٩٨٠ء، شہر سدا رنگ، ١٧ )
٢ - [ مجازا ] حسین، خوبصورت۔
 گوروں سے دور گاڑیو مجھ ناصبور کو ورنہ رہے گا زلزلہ اہل قبور کو    ( ١٧٩٥ء، حسرت (جعفر علی)، کلیات، ٤٨٥ )
٣ - سرخ (جب مویشی کے لیے استعمال ہو۔ (پلیٹس)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : گورے [گو (و مجہول) + رے]
جمع   : گورے [گو (و مجہول) + رے]
جمع غیر ندائی   : گوروں [گو (و مجہول) + روں (و مجہول)]
١ - یورپین یا انگریز سپاہی یا سنتری، یورپین، انگریز، فرنگی، ادنٰی درجے کا انگریز۔
"فرنگی برق پرنگاہ پڑی، سن سی رہ گئی، چند گھنٹے قبل بالکل ایسا جھنڈا سنبھالے گوروں نے دھاوا بولا تھا۔"      ( ١٩٨٧ء، گردش رنگ چمن، ١٠٧ )
٢ - [ بیل بانی ]  ہلکا بھورا یا مل گجی رنگت کا سفید بیل۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 61:5)۔