ارمان

( اَرْمان )
{ اَر + مان }
( ترکی )

تفصیلات


ترکی زبان سے اسم جامد ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فارسی سے اردو میں آیا۔ اردو میں ١٨٧١ء کو "آخرگشت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع   : اَرْمان [اَر + مان]
جمع غیر ندائی   : اَرْمانوں [اَر + ما + نوں (و مجہول)]
١ - آرزو، تمنا، خواہش۔
 کس جلوے کا یہ دھیان ہے کس نور کا ارمان ہے      ( ١٩٢٨ء، سلیم، افکار سلیم، ٥٧ )
٢ - چاو، لاڈ، پیار۔
"لوگوں سے اولاد کی ایک بڑی ظالمانہ حق تلفی یہ ہوتی ہے کہ مارے ارمان کے چھوٹی سی عمر میں ان کی شادی کر دیتے ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٨٧:٢ )
٣ - (محرومی وغیرہ پر) افسوس، تاسف۔
"سسرال کو چھوڑنا پڑا، میکے سے رشتہ جوڑنا پڑا . رنگ زرد زرد، کلیجے میں درد . خیال کہیں دھیان کہیں، اپنے دالان میں کھڑی، کسی ارمان میں کھڑی۔"      ( ١٩٠١ء، راقم، عقد ثریا، ٤ )
  • wish
  • desire
  • inclination;  longing;  eagerness;  hope;  regret
  • grief
  • sorrow;  vexation
  • contrition
  • remorse;  anguish of repentance