اردو

( اُرْدُو )
{ اُر + دُو }
( ترکی )

تفصیلات


ترکی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ١٧٩٧ء کو"لطائف السعادت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مؤنث - واحد )
١ - برصغیر پاک و ہند کے اکثر علاقوں میں بولی اور سمجھی جانے والی زبان جس کے لغات میں پراکرت نیز غیر پراکرت، دیسی لفظوں کے ساتھ ساتھ عربی فارسی ترکی اور کچھ یورپی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہیں اور جس کی قواعد میں عہد بہ عہد تصرفات اور مقامی اختلافات کے باوجود آریائی اثر غالب ہے۔ (ابتداءً ہندوی یا ہندی کے نام سے متعارف رہی۔ ابتدا یا آغاز کے بارے میں مختلف نظریات ہیں : بعض لوگ سورسینی یا اب بھرنش کی جدید ترقی یافتہ یا ترمیم شدہ شکل بتاتے ہیں جس نے عہد غزنوی کے لگ بھگ نیا روپ نکالنا شروع کیا اور جو تقریباً چودھویں صدی سے ضبط تحریر میں آئی۔ منظوم اردو کو ریختہ کہتے تھے۔ دہلی کے محاورے کے مستند ہونے کی سند قلعہ معلٰی کی زبان ہوئی؛ اس بنا پر زبان 'اردوئے معلٰی کہلائی جو کثرت استعمال سے اردو ہو گئی۔ بعض مغربی مصنفوں نے اسے 'مورز' کا نام بھی دیا۔ جدید ہندی سے عربی فارسی الفاظ کی فراوانی تدھبو کے رجحان اور غربی رسم الخط کی بنا پر متمیز؛ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جس میں اردو کی مخصوص آوازوں کیلئے کچھ اضافے کر لیے گئے ہیں۔ کئی سو سال کا ادبی اور علمی ذخیرہ اس میں موجود ہے۔ خصوصاً بیسویں صدی میں جدید علوم و فنون کی بکثرت کتابیں اس میں تصنیف و تالیف اور ترجمہ ہوئیں اور بے شمار علمی اصطلاحات وضع ہوئیں؛ اس طرح یہ اعلٰی تعلیم کے مختلف درجات میں انگریزی کی جگہ برصغیر کے دفتروں میں رائج ہوئی، بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے اردو ہندی کا قضیہ شروع ہوا اور ایک نئی زبان ہندی بنائی گئی، برصغیر پاک و ہند کی سیاسی جدوجہد آزادی میں اردو کا بڑا حصّہ ہے۔
"اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیا کرام کا کام۔"      ( ١٩٦١ء، (کتاب کا نام) مولوی عبدالحق۔ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - لشکر، سپاہ، فوج۔
"اکثر قبائل کو اپنے اردو میں شامل کیا۔"      ( ١٩٣٠ء، تیمور، ٤١٨ )
٢ - لشکر گاہ، چھاؤنی، کمپو۔
 اردو میں دکانیں جو لگائے تھے دکاندار آراستہ ہو جاتا تھا اک چھوٹا سا بازار      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣:٣ )
٣ - بازار، صدر بازار، بڑا بازار۔
 او جان کے گاہک ترے اردو میں جو آئے سودائی ہوئے حسن کا بازار سمجھ کر      ( ١٨٦٦ء، ہزبز، دیوان، ٤٦ )