گودا

( گُودا )
{ گُو + دا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٤ء کو "ترجمۂ گلستان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : گُودے [گُو + دے]
جمع   : گُودے [گُو + دے]
جمع غیر ندائی   : گُودوں [گُو + دوں (و مجہول)]
١ - نلیوں اور ہڈیوں کا اندرونی ملائم مادہ۔
"ہڈیوں کا گودا جما دینے والی برف بار ہوا کا زور کچھ کم ہوا تھا۔"      ( ١٩٨٣ء، دشت سوس، ١٠١ )
٢ - سر کا مغز، بھیجا۔
"بچپن کی بعض باتیں ذہن کے گودے میں یوں دھنس جاتی ہیں کہ نکالے نہیں نکلتیں۔"      ( ١٩٦٤ء، آبلہ پا، ١٠٤ )
٣ - کسی پھل، ترکاری یا بیج وغیرہ کا وہ نرم حصہ جو چھلکے کے اندر ہوتا ہے۔
"پھلوں کا گودا آسانی سے گٹھلی سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔"    ( ١٩٧٠ء، گھریلو انسائیکلوپیڈیا، ٤٤٥ )
٤ - ٹکرا (ڈبل روٹی وغیرہ کا)، موٹی روٹی کا اندرونی نرم حصہ، ڈبل روٹی کا نرم حصہ جو سخت چھلکا کاٹ دینے کے بعد باقی رہ جاتا ہے۔
"نان پاؤ کا گودا نکال کر اس کے روے کو الگ الگ کر کے ان ٹکیوں پر چمٹاؤ۔"    ( ١٩٠٦ء، نعمت خانہ، ١٠٤ )
٥ - کسی چیز کا اندرونی حصہ، پودوں کے بیج کی نس۔ (ماخوذ فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٦ - [ مجازا ] اصل جوہر، اصل چیز، اہم چیز۔
"گودا گودا تو سرکار نکال لیتی ہے باقی بچی ہڈیاں ان کو زمیندار اور کاشتکار پڑے چچوڑا کریں۔"    ( ١٨٩٩ء، رویائے صادقہ، ٣٠ )
٧ - لب لبالب، خلاصہ۔ (پلیٹس، جامع اللغات)
  • Brain;  marrow;  kernel;  pith;  crumb (of a loaf);  gist
  • substance
  • essence.