فارسی زبان کے لفظ 'چرب' کے ساتھ 'ی' لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'چربی' بنا اور اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء میں "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - ایک سفید یا زردی مائل چکنا منجمند یا رقیق اور خلخلا مادہ جو جانداروں کے جسم میں پیدا ہوتا ہے اور حرارت سے پگھل کر تیل کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جسم کی چکنائی، روغن، رواز۔
"گائے کی چربی، بیل کا پتا، روغن بادام مفید ہوتے ہیں۔"
( ١٩٣٩ء، شرح اسباب (ترجمہ)، ١٥١:٢ )
٢ - موم، مومیائی۔
"شمع کو عاشق کے غم میں رلاتے ہیں - چربی گھل گھل کر بہتی ہے مگر پائے استقامت اس کا نہیں ٹلتا۔"
( ١٨٨٠ء، آب حیات، ٥٥ )
٣ - [ کنایۃ ] چکنا ہونے کی حالت؛ چکنی چپڑی بات، خوشامد۔
چربی و نرمی بچا لیتی ہے خونخواروں کو بھی زنگ کھا جائے نہ چکنائیں اگر تلوار کو
( ١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ٨١:١ )