گنجلک

( گُنْجلَک )
{ گُنْج + لَک }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں بطور اسم اور گا ہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٣٣ء کو "دیوان زادہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - مکدر، گندہ، گنجان، الجھا ہوا، گتھا ہوا۔
"غرض آج کا چبوترہ یعنی اسٹیج اتنا گنجلک ہو چکا ہے کہ امانت لکھنوی اور آغا حشر جیسے کینڈے کے لوگ بھی بوکھلا گئے ہیں۔"      ( ١٩٩١ء، افکار، کراچی، اپریل، ٦٠ )
٢ - گرہ دار۔
"آواز بھاری و گنجلک ہو کر جسے گھگھی بندھہ جانا کہتے ہیں، بعض دفعہ بالکل بند ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩١٤ء، فلسفۂ جذبات، ١٥٣ )
٣ - الجھا ہوا، پیچیدہ، مبہم۔
 غزل کہا کرو اے بحر صاف صاف ایسی بشکل موج نہ شعروں میں گنجلک دیکھیں      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٤٤ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - (عبارت یا معنی میں) پیچیدگی، الجھاؤ۔
"بلاغت اس کلام کو کہتے ہیں جو مختصر ہو، جامع ہو، دل کش ہو اور گنجلگ سے بری ہو۔"      ( ١٩٨٨ء، فن خطابت، ٤٣ )
٢ - الجھیڑا، الجھن، بکھیڑا۔
 فیصلہ بوسوں کا کرلو کہ پھر انکار نہ ہو کوئی گنجلک نہ رہے وقت پہ تکرار نہ ہو      ( ١٩٣٨ء، دو نایاب زمانہ بیاض (شفا لکھنوی)، ٢٦ )
٣ - گرہ، گانٹھ، کدورت۔
 گنجلک نہیں مٹتی جو طبیعت میں پڑی ہے دل تجھ سے کسی طور سے دلبر نہیں ملتا      ( ١٨٤٣ء، دیوان رند، ٢٤٨:٢ )
٤ - گڑبڑ، فرق۔
"شنکر لہار اور ماتا دین بڑھئی کے حساب میں کچھ گنجلک تھی اسے صاف کرالیا۔"      ( ١٩٠٠ء، شریف زادہ، ٢٦ )
٥ - شکن، سلوٹ۔ (نوراللغات، فرہنگ آصفیہ)
  • سِلْوَٹ
  • جَھگّڑا