"غرض آج کا چبوترہ یعنی اسٹیج اتنا گنجلک ہو چکا ہے کہ امانت لکھنوی اور آغا حشر جیسے کینڈے کے لوگ بھی بوکھلا گئے ہیں۔"
( ١٩٩١ء، افکار، کراچی، اپریل، ٦٠ )
٢ - گرہ دار۔
"آواز بھاری و گنجلک ہو کر جسے گھگھی بندھہ جانا کہتے ہیں، بعض دفعہ بالکل بند ہو جاتی ہے۔"
( ١٩١٤ء، فلسفۂ جذبات، ١٥٣ )
٣ - الجھا ہوا، پیچیدہ، مبہم۔
غزل کہا کرو اے بحر صاف صاف ایسی بشکل موج نہ شعروں میں گنجلک دیکھیں
( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٤٤ )