شکن

( شِکَن )
{ شِکَن }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں بعینہ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : شِکَنیں [شِکَنیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شِکَنوں [شِکَنوں (و مجہول)]
١ - چنٹ؛ سلوٹ (کاغذ یا کپڑے وغیرہ کی)؛ جھرّی؛ چین (جسم کے کسی حصے خصوصاً پیشانی کی)؛ پیچ، بل (زلف کا)۔
"پیشانی کی چھوٹی بڑی متعدد شکنیں تاریک سمندر کی لہروں سے ملتی ہوئی۔"      ( ١٩٨٦ء، نیم رُخ، ٧٢ )
٢ - شکست، ہراس، یاس۔
 بہ تحت دل جو شہ مذکور آیا شکن نہ آہ کا دھونسا بجایا      ( ١٦٢٥ء، بکٹ کہانی، ٢ )
٣ - [ طب ]  وہ جسمانی بناوٹ کی خصوصی چنٹ یا جھول وغیرہ جو بعض عضو پر ہوتا ہے۔
"ان میں عرضاً پھیلی ہوئی شکنوں کا جال سا بچھا رہتا ہے۔"      ( ١٩٨٤ اساسی حیوانیات، ٨٧ )
٤ - جھول، ناہمواری، شتر گربگی۔
"وحشت کی ہموار شاعری میں ہلکی سے ہلکی شکن بھی اچھی نہیں معلوم ہوتی۔"      ( ١٩٨٩ء، نگار، کراچی، اپریل، ٣٣ )
٥ - بستر کی سلوٹ، چادر یا پلنگ پوش کا سکڑ جانا۔
"فرشِ خواب پر جا بجا شکنیں نمایاں۔"      ( ١٩٨٠ء، فکرِ جمیل، ١٣٣ )
٦ - [ کنایۃ ]  فرق، کمی، تبدیلی۔
"فرانس بعض عالمگیر کسا دبا زاریوں سے کیونکر بال بال بچا رہا . تباہی نے یہاں کی پرسکون سطح میں ذرا سی شکن یا ناہمواری بھی پیدا نہ کی۔"      ( ١٩٣٧ء، اصولِ معاشیات، ٥٣٠:١ )
٧ - مرکبات میں جزو آخر کے طور پر توڑنے والا کے معنوں میں جیسے: بت شکن، عہدشکن وغیرہ۔
"یہ افواہ بہت عام تھی کہ سیالکوٹ کے محاذ پر لوگ ہاتھ میں ٹینک شکن بم لے کر ٹینکوں کے سامنے لیٹ رہے ہیں۔"      ( ١٩٦٨ء، ابلاغ عام، ٥٦ )
  • Breaking
  • crushing
  • overthrowing
  • routing;  breaker;  shrinking
  • shriveling;  a curl;  a ply;  a furrow
  • crease
  • wrinkle