گواہی

( گَواہی )
{ گَوا + ہی }
( فارسی )

تفصیلات


گواہ  گَواہی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'گواہ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'گواہی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٣٩ء کو "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : گَواہِیاں [گَوا + ہِیاں]
جمع غیر ندائی   : گواہِیوں [گوا + ہِیوں (و مجہول)]
١ - گواہ کا بیان، شہادت، توثیق، تائید، شاہدی۔
 تو شعاعوں کا تبسم، توا جالوں کا سرور ہر کرن تیری گواہی، ہر سحر تیرا ظہور      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٢٠ )
١ - گواہی دینا
اقرار کرنا، تصدیق کرنا۔ تاریخ ہر ایک موڑ پہ دیتی ہے گواہی قدرت کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے      ( ١٩٧٧ء، ماجرا، ٤٤ )
(دل کا) کسی خیال کی تائید کرنا۔"میرا دل بھی یہی گواہی دیتا ہے۔"      ( ١٨٩١ء، بوستان خیال، ٢٦٣:٨ )
٢ - گواہی مانگنا
ثبوت مانگنا۔ کس کڑے وقت میں موسم نے گواہی مانگی جب گریبان ہی اپنا ہے نہ دامن اپنا      ( ١٩٨١ء، ماجرا، ٢٥ )
  • Evidence
  • witness
  • testimony;  deposition;  written testimony