کٹنی

( کُٹْنی )
{ کُٹ + نی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم 'کٹنا' کا 'الف' حذف کر کے 'ی' بطور لاحق تانیث لگانے سے 'کٹنی' بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٣٧ء کو "طالب و موہنی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مؤنث - واحد )
١ - چالاک، عیّارہ۔
"بڑی دلہن بیٹی یہ کٹنی سرموندھ کر بھی نہ چھوڑے گی، خدا کے لیے اس کو نکال باہر کرو۔"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشاء، ٧٤ )
٢ - لگائی بجھائی کرنے والی، لتری۔
"چلتی تو ایسی گربہ پائی کے ساتھ جیسے (خدا مجھے بھی معاف کرے) کٹنی کنسوئیاں لیتی پھرتی ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، اجلے پھول، ١٢٥ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : کُٹْنِیاں [کُٹ + نِیاں]
جمع ندائی   : کُٹْنِیو [کُٹ + نِیو (واؤ مجہول)]
جمع غیر ندائی   : کُٹْنِیوں [کُٹ + نِیوں (واؤ مجہول)]
١ - کسی عورت کو مرد سے یا مرد کو عورت سے ملوانے کے لیے یا دور کرنے کے لیے، ورغلانے والی عورت، لگائی بجھائی کرنے والی، دلاّلہ، نائکہ، عورتوں کو بھگا لے جانے والی عورت۔
 میں بھی آخر سنوں تو کیا باعث نہیں کٹنی جو رنج کا باعث      ( ١٩٢١ء، دیوان ریختی، محسن، ٢٨ )
  • دَلاّلَہ
  • جَمالو