صلیبی

( صَلِیبی )
{ صَلی + بی }
( عربی )

تفصیلات


عربی سے اردو میں دخیل اسم 'صلیب' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ نسبت لگانے سے 'صلیبی' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٩٧ء کو "تمدن عرب" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی ( واحد )
جمع   : صَلِیبوں [صَلی + بوں (و مجہول)]
جمع ندائی   : صَلیبو [صَلی + بیو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : صَلِیبوں [صَلی + بوں (و مجہول)]
١ - صلیب کی شکل کا، صلیب جیسا۔
"ہر ایک صورت میں جو خیال دکھائی دیتا ہے اس میں اور خردبین کے صلیبی تاروں میں اختلافِ منظر نہ ہو۔"      ( ١٩٢١ء، طبیعیاتِ عملی (عبدالرحمٰن)، ٧٣:١ )
٢ - عیسائیوں کا، نصاریٰ کا۔
"فلسطین اور اسکا مقدس شہر یروشلم صلیبی عَلَم کی بجائے درفشِ کاویانی کے زیر سایہ آگیا۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٥١٥:٣ )
٣ - عیسائی، نصرانی۔
"اٹلی کے تجارتی شہروں اور صلیبیوں کے ریاستوں کے درمیان عمومی قسم کے معاہدات بھی طے ہوتے رہتے ہیں۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٥٥٤:٣ )