عرضی

( عَرْضی )
{ عَر + ضی }
( عربی )

تفصیلات


عرض  عَرْض  عَرْضی

عربی زبان سے مشتق اسم 'عرض' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'عرضی' بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
١ - تحریری درخواست، عرضداشت، التماس یا گزارش جو تحریری طور پر کی جائے۔
"میں مزید چھٹیوں کے لیے عرضی بھیجتا رہا اور اسی طرح پندرہ روز بیت گئے۔"    ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ١٦ )
٢ - چھوٹے کی طرف سے بڑے کو خط، عریضہ (شاذ)۔
 کیا سو رہی ہو خواب جوانی کو کم کرو اُٹھو جواب عرضی صغرا رقم کرو    ( ١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ١٨٦:٢ )
صفت نسبتی ( واحد )
١ - پھیلاؤ، وسعت (طولانی کا نقیض)۔
"ان دونوں راستوں میں راستہ ب کے درمیان شیشے کی عرض دیوار ہو تو یہ مچھلی. الف میں آئے گی۔"      ( ١٩٣٢ء، اساس نفسیات، ٢٤٣ )
٢ - ایسی تکلیف جو کسی دوسری بیماری سے پیدا ہو، عرض سے منسوب (اصلی کے بالمقابل)۔
"یہ زخم یا طبعی ہوتا ہے یا عرضی ہوتا ہے۔"      ( ١٩٢٧ء، جراحیات، زہراوی، ٥٣ )
٣ - وہ صفات جو ماحول کے اثر سے پیدا ہو گئی ہوں۔
"عرضی صفات جو بچے کے ہوتے ہیں وہ بھی باقی ہی رہتی ہیں۔"      ( ١٩٤٠ء، اسنار اربعہ، ١٤٨٦:١ )
  • عَریضَہ
  • مَعرُوضَہ