صیاد

( صَیّاد )
{ صَیْ + یاد }
( عربی )

تفصیلات


صید  صَیّاد

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : صَیّادْنی [صَیْ + یاد + نی]
جمع غیر ندائی   : صَیّادوں [صَیْ + یا + دوں (و مجہول)]
١ - شکار کرنے والا، شکاری؛ چڑی مار۔
 برق منڈ لا رہی تھی اے صیاد کچھ بتا حال آشیانے کا      ( ١٩٨٣ء، حصارِ انا، ١٥٤ )
٢ - [ موسیقی ]  ایک راگنی کا نام جو راگ بوسلیک سے اختراع کی گئی ہے۔
"بوسلیک . دوسرا شعبہ اُس کا صیاد ہے اُس کے پانچ نغمہ ہیں۔"      ( ١٨٤٥ء، مطلع العلوم (ترجمہ)، ٣٤٤ )
٣ - [ تصوف ]  تعینات کی دلکشی جو باعث گرفتاری ہوتی ہے۔ (مصباح التعرف)
  • A sportsman
  • hunter
  • fowler
  • fisher;  (poet) one who captivates
  • a ravisher of heats