گھیرنا

( گھیرْنا )
{ گھیر (ی مجہول) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'گھیر' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے 'گھیرنا' بنا۔ اردو میں بطور فعل اور گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٨٨ء کو "معراج نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - چاروں طرف سے محاصرہ کرنا، احاطہ کرنا۔
"کیا دیکھتا ہوں کہ قبر کو سات آٹھ اونچی اونچی بلائیں گھیرے کھڑی ہیں۔"    ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٣٦:٦ )
٢ - راستہ روکنا۔
 دیکھ اپنے در پہ مجھ کو یوں کہا منہ پھیر کے یہ دوانہ کس لیے بیٹھا ہے رستہ گھیر کے    ( ١٨٠٩ء، جرات، کلیات، ١٧٣ )
٣ - قابو میں لانا، بند کرنا، جس کرنا۔
"لمبے لمبے ستونوں سے باندھ کر شعلوں کی لپیٹ میں گھیر دیا جائے گا۔"    ( ١٩٨٠ء، تجلی، ٥٨ )
٤ - باڑ کھینچنا، احاطہ، چار دیواری یا جنگلہ وغیرہ بنانا، حد بندی کرنا۔
"غرض مدرسے نے کوئی دو میل کا رقبہ گھیر رکھا ہے۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامنین، ٣:٤ )
٥ - پیپھا لینا، سر رہنا۔
"شطرنج پہلے حکیم شرافت علی خاں سے سیکھی، اب مومن خاں کو گھیرے رہتے ہیں۔"      ( ١٩٢٨ء، آخری شمع، ٧٨ )
٦ - آڑ کے طور پر کوئی چیز روکنا، روکنا، حائل بنانا۔
 کچھ گھیرنے کے واسطے خیمے سے منگالو یا پردے کی خاطر مرے اکبر کو بلا لو      ( ١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ٢٣١:١ )
٧ - پکڑنا، جکڑنا (کسی مرض وغیرہ کا)۔
"بیماری نے گھیرا تو غضب ہی ہو گیا۔"      ( ١٨٩٣ء، پی کہاں، ٥١ )
٨ - ہجوم کرنا، چاروں طرف جمع ہو جانا، نرغے میں لینا، گھیرے میں لینا۔
"کتوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔"      ( ١٩٨٦ء، جانگلوس، ٢٢٤ )
٩ - چرائی وغیرہ کے لیے کسی کے مویشی لینا۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
١٠ - کسی عورت کو گھر میں ڈال لینا، مدخولہ بنانا، بیوہ سے شادی کرنا۔ (جامع اللغات، فرہنگ آصفیہ)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ کپا سازی ]  چمڑے کے گول ٹکڑے کاٹنے کا گتے نما گول کینڈا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 20:3)
  • مُحِیْط
  • پَھیلاؤ