گھنگرو

( گُھنْگْرُو )
{ گُھنْگ (ن مغنونہ) + رُو }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : گُھنْگْرُوؤں [گُھنْگ + رُو + اوں (و مجہول)]
١ - مٹر کے برابر یا اس سے کچھ بڑا دھات کا بنا ہوا گول دانہ (خول والا) جو ہلنے سے بجتا ہے نیز اسی قسم کے دانوں سے بنا ہوا ایک زیور جو اکثر ناچنے والیاں | والے ناچتے وقت پہنتے ہیں، زنگلہ۔
"سب سے پہلے تو میں نے یہ کام کیا کہ اپنے پاؤں سے گھنگرو اتار کر پھینکے، یہ کم بخت میری آمد کا اعلان کرتے جاتے تھے۔"      ( ١٩٨٩ء، غالب رائل پارک میں، ١٦٥ )
٢ - وہ آواز جو نزع میں دم اٹکنے سے نکلتی ہے، گھرا، بلغم جمع ہو جانے سے تنفس میں پیدا ہونے والی آواز۔
"ہوائی گزرگاہوں میں مخاط کے اجتماع سے تنفس کی وہ شکل پیدا ہو جاتی ہے جسے گھنگرو کہتے ہیں۔"      ( ١٩٣٧ء، طب قانونی اور سمومیات، ٥٣ )
٣ - سنی کا پھل جس کے اندر اس کا بیج گھنگرو کی طرح بجتا ہے، ڈوڈا، چنے کا خول۔ (فرہنگ آصفیہ، نوراللغات)
  • جھانْجَھر
  • پائِل
  • خَول
  • A small bell;  a string of small bells worn round the wrist or ankle;  Morris-bells