گھٹن

( گُھٹَن )
{ گُھٹَن }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ لفظ 'گھٹنا' کا حاصل مصدر 'گھٹن' اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩١٧ء کو "بیوی کی تعلیم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - دم گھٹنے اور دم رکنے کی کیفیت، ماحول کی گھٹن۔
"اس طرح کے ترجموں میں گھٹن پیدا ہوتی ہے اور مدتوں کے بند کمروں کی سی فضا ان میں رچ جاتی ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، ترجمہ : روایت اور فن، ٦٩ )
٢ - جس کی وہ کیفیت جو ہوا بند ہونے سے پیدا ہوتی ہے، گھمس۔
 گھٹن ہے ایسی کہ صرصر کو بھی ترستے ہیں کسے پکاریں کہاں جائیں اے خدائے صبا      ( ١٩٨٥ء، خواب در خواب، ٢٩ )
٣ - جذبات کی گھٹن جو خاموش رہنے سے پیدا ہوتی ہے، جی گھبرانا۔
"رشید احمد صدیقی صاحب ایک آدھ دلچسپ جملہ بول کر گھٹن کو کم کرنے کی کوشش کرتے۔"      ( ١٩٩٢ء، افکار، کراچی، جنوری، ١٧ )
  • گُھمَس
  • stopping
  • or stoppage (of the breath);  suffocation