دمک

( دَمَک )
{ دَمَک }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں پراکرت سے داخل ہوا اور عربی رسم الخط میں استعمال ہونا شروع ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٩٥ء کو قائم کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - تازگی، رونق۔
"اس کے چہرے کی دمک سورج کو مانند کر رہی تھی۔"      ( ١٩٢٩ء، ناٹک کتھا، ١٠ )
٢ - چمک، آب و تاب، روشنی، تمتماہٹ۔
"کیتھوڈ کے اوپر جو دمک یعنی گلو نظر آتا ہے وہ ہلکے بنفشی رنگ کا اور بہت نمایاں ہوتا ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، جدید طبیعیات، ٢١ )
٣ - پرجوش جذبہ۔ (پلیٹس)
"سفید فاسفورس . لہسن کی بو کا دھواں خارج کرتا ہے لیکن یہ دمک صفر درجے پر ختم ہو جاتی ہے۔"      ( ١٠ )
٤ - تپش، گرمی؛ دیک؛ روشنی؛ گرم ہوا کا جھونکا۔
"سفید فاسفورس . لہسن کی بو کا دھواں خارج کرتا ہے لیکن یہ دمک صفر درجے پر ختم ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، غیر نامیاتی کیمیا، ٢٨٩ )
٥ - سرخی، چہرے یا سونے کی تمتماہٹ۔
 ذروں کی ضو سے مہر جہاں تاب زرد تھا مٹی میں دمک تھی کہ کندں بھی گرد تھا      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٦٠:١ )
٦ - دھمک۔     
"نقارہ کی دمک . سے برف پڑنے لگتی ہے۔"     رجوع کریں:  دَھمَک ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٣٥٢ )
صفت ذاتی
١ - پلانا، سدھانا، مطیع بنانا؛ سدھانے والا، قابو میں کرنے والا؛ اپنے جذبات پر قابو رکھنے والا؛ برگزیدہ انسان، فوق البشر صفات رکھنے والا، ہیرو۔ (پلیٹس)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ لوہاری ]  لوہاری کی بھٹی کی دھوکنی کا گاؤ دم وضع کا لمبوترا منہ جو عام طور سے ایک خاص قسم کی مٹی کا بنایا جاتا ہے جو آگ کے اثر سے خراب نہیں ہوتا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 7:8)