دوشیزہ

( دوشِیزَہ )
{ دو (و مجہول) + شی + زَہ }
( فارسی )

تفصیلات


دوشیدن  دوشِیزَہ

فارسی زبان سے اسم مشتق ہے۔ فارسی مصدر 'دوشیدن' سے فعل امر 'دوش' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ریزہ' بطور لاحقۂ تصغیر لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٨٠ء کو "فسانہ آزاد" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : دوشِیزائیں [دو (و مجہول) + شی + زا + ایں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : دوشِیزاؤں [دو (و مجہول) + شی + زا + اوں (و مجہول)]
١ - کنواری غیر شادی شدہ جواں سال لڑکی۔
"آسمانی دوشیزہ آسمان سے نیچے اتر رہی تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، جاپانی لوک کتھائیں۔ ١١٣ )
٢ - [ مجازا ]  خوبصورت لڑکی، حسین و جمیل۔
 کتنی کنیزیں ماہ لقائیں دوشیزائیں دائیں بائیں      ( ١٩٦٢ء، ہفت کشور، ٥٨ )
  • A virgin