استعارہ

( اِسْتِعارَہ )
{ اِس + تِعا + رَہ }
( عربی )

تفصیلات


عور  اِسْتِعارَہ

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب استفعال المعتل اجوف واوی سے مصدر 'اِسْتِعارَۃ' ہے۔ اردو میں 'استعارہ' مستعمل ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٦٦ء کو فیض حیدر آبادی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - مستعار لینا، عارضی طور پر مانگ لینا۔
"مولوی مہدی علی نے خواہش کی کہ سرکار انگریزی سے ان کی خدمات کا استعارہ کر لیا جائے۔"      ( ١٩٣٤ء، حیات محسن، ٧ )
٢ - [ علم بیان ]  لفظ کا مجازی معنی میں استعمال جبکہ حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کا علاقہ ہو، مشبہ بہ سے مشبہ مراد لینا، جیسے : شیر (مشبہ بہ) بول کر مرد شجاع (مشبہ) مراد لینا۔
 لار و گل کو تجھ سے کیا نسبت نامکمل سے استعارے ہیں      ( ١٩٥٤ء، آتش گل، جگر، ١٠٥ )