انگریزی سے اصل مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٩٤٣ء کو "فنِ صحافت" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
١ - کسی تقریر، تحریر وغیرہ پر سیاسی، مذہبی یا انتظامی مصالح کی بنا پر تحدید و پابندی، روک ٹوک، احتساب۔
"اگر ادیب ہمہ وقت سنسر کی گھٹن اور کشکول کی لگن کے تحت اظہار خیال کرے گا، تو ہزار کوشش کے باوجود اس کی بات میں اثر نہ ہو گا۔"
( ١٩٨٨ء، افکار، کراچی، اپریل، ١٤ )
٢ - ناظر، محتسب، نکتہ چین، روک ٹوک کرنے والا۔
"قدرت کا سنسر ہمارے سنسر سے بھی سخت اور بے مروت ہے۔"
( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ١، ١٢٦:٣ )