لاج

( لاج )
{ لاج }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے۔ اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - حیا، شرم، لحاظ، غیرت، حجاب، عار۔
"نوج ایسی لاج بھی کیا!۔"    ( ١٩٤٢ء، سیلاب و گرداب، ١٥ )
٢ - شرمندگی، خجالت۔ (جامع اللغات)۔
٣ - عزت، آبرو، ناموس، حرمت۔
 تو ہر ایک دکھ کا علاج ہے، ترا نام عشق کی لاج ہے تو ہی دل زدوں کا ہے مدعا، تو ہی غم زدوں کا ہے آسرا      ( ١٩٨٤ء، مرے آقا، ٢٠ )
  • شرم
  • حیا
  • غیرت
  • شرمندگی
١ - لاج رکھ (لینا|رکھنا)
بھرم رکھنا، آبرو بگڑنے نہ دینا، عزت بچانا۔"حضرت مولانا شہر میں واپس آ گئے تو میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا حضرت دیکھنا میری لاج رکھنا۔"      ( ١٩٨٩ء، جنہیں میں نے دیکھا، ١٦٩ )
٢ - لاج آنا
شرم محسوس ہونا، شرم آنا۔"اماں کو خود لاج آتی تھی دوپٹے کے بغیر اچھلتی کوتی عالیہ کو یکھ کر۔"      ( ١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٢٠٧ )
٣ - لاج سے مرنا
بے حد شرمندہ ہونا، غیرت کے مارے زمین میں گڑنا۔(علمی اردو لغت، جامع اللغات)
٤ - لاج لگنا
شرم آنا نیز بدنامی ہونا"وہی چیزیں جو کسی وقت مکان کی زینت اور آرائش کا سامان تھیں، آج بیٹھنے والے کو بھی لاج لگتی تھیں۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٠٢ )
٥ - لاج مٹانا
خجالت دور کرنا، شرمندگی مٹانا"یہ کسی ہارے ہوئے دشمن کی شکست کی لاج مٹاتی ہیں۔"      ( ١٩٦٨ء، مغربی شعریات )
٦ - لاج ہونا
لحاظ ہونا، شرم و حیا ہونا۔ نہ دیگا ان کیا پیدا کیے کی لاج ہے جس کو اسی کا آسرا ہے منہ دکھاءوں اور اب کس کو      ( ١٩٢٣ء، مطلع انوار، ١٥٤ )
  • shame
  • sense of decency;  bashfulness
  • modesty;  honour
  • reputation
  • good name