گھونگھٹ

( گُھونْگَھٹ )
{ گُھون (ن مغنونہ) + گَھٹ }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - چادر، دوپٹے وغیرہ کا منھ کے آگے جھکا ہوا یا نقاب کی طرح پڑا ہوا پلو۔
"بہو تو گھونگھٹ نکال کر دور ہی رہ گئی لیکن ٹھکرائن آیا سنبھالتی قریب آگئیں۔"      ( ١٩٨٧ء، ابوالفضل صدیقی، ترنگ، ٩٤ )
٢ - [ معماری ]  دروازے کی اندرونی دیوار، وہ دروازہ جس کے سامنے کوئی آڑ اس طرح بنی ہوئی ہو کہ دروازہ سامنے سے نظر نہ آئے اور اوٹ میں رہے، کھوگس۔
"اس نے وہاں جا کر دیکھا تو گھونگھٹ زنانی ڈیوڑھی کے پردے کے پاس عقب میں بنا ہے۔"      ( ١٨٩٠ء، طلسم ہوشربا، ٢١:٤ )
٣ - پردہ، اوٹ۔
"چاند لجا کر بادل کے گھونگھٹ میں چھپ جاتا ہے۔"      ( ١٩٨٩ء، سمندر اگر میرے اندر گرے، ٦٠ )
٤ - عضو تناسل کے آگے کا چمڑا جو ختنہ کر کے کاٹ دیتے ہیں۔
"(یعنی جسم اجوف، ذکر، گھونگھٹ) ادعیہ، منی، غدۂ مندرجیہ، فوطہ۔"      ( ١٩٣٤ء، ہمدرد صحت، دہلی، جولائی، ٢٩ )
٥ - جنگ کا مورچہ۔
 جو سردار اور اہل رایات تھے بڑھے خوب گھونگھٹ میں گھس کر لڑے      ( ١٨٨٠ء، قمقام الاسام، ٢٩ )
٦ - پہاڑ وغیرہ کی آڑ، اوٹ، پردہ۔
"سواد قبلیہ کے پہاڑوں کی ایک محفوظ گھونگھٹ میں عاشق و معشوق ایک دوسرے سے ملے۔"      ( ١٩٢٣ء، مخدرات، ٦١ )
٧ - گھوڑے کا گردن اونچی کر کے سرجھکانا، گھوڑے یا سقے کی اندھیری۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)