دوئی

( دُوئی )
{ دُو + ای }
( فارسی )

تفصیلات


دو  دُوئی

فارسی زبان سے اسم صفت عددی 'دو' کے ساتھ 'ئی' بطور لاحقۂ کیفیت لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٤٣٥ء کو "کدم راو پدم راو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - یکتائی یا وحدت کی ضد، دو سمجھنا، شرکتِ غیریت، شریک ہونا، جوڑا ہونے کی حالت۔
 انسان میرا راز ہے میں ہوں اس کا راز سنا تھا یہ اور وہ پھر ایک ہوئے وحدت میں ذکر دوئی کیا      ( ١٩٨٥ء، درپن درپن، ١٠١ )
٢ - غیریت، اپنا نہ سمجھنا۔
 کتنے استارِ مدارات و حجاباتِ دوئی آج اے طالع برگشتہ ہیں ان میں حائل    ( ١٩٦٢ء، برگِ خزاں، ٢٢٧ )
٣ - دو سمجھنا، فرق، اختلاف۔
"سردار بدھ سنگھ کے دل میں فرقہ وارانہ دوئی ذرہ برابر نہ تھی۔"    ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٢٦٤ )
٤ - جدائی، ان بن، جھگڑا، دہرا رویہ۔
"پھولوں کے معاملے میں یہ دوئی ہمارے تہذیبی انتشار کا اظہار ہے۔"    ( ١٩٨٣ء، علامتوں کا زوال، ٦٢ )
٥ - [ سائنس ] تضاد، دہراپن۔
"ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی کی ساخت میں دوئی (Dualism) پائی جاتی ہے۔"    ( ١٩٧٥ء، غیر نامیاتی کیمیا، ٦ )
٦ - دوری، فاصلہ۔
"آسمان زمین کی دوئی، انسان کے ابتدائی ذہنی ارتقا کے دور میں ابھری تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، برش قلم، ٢٤٥ )
  • the being two or two-fold;  matching
  • paring;  a second
  • another;  separation
  • disunion
  • discord