دہلیز

( دَہْلِیز )
{ دَہ + لِیز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : دَہْلِیزیں [دَہ + لی + زیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : دَہْلِیزوں [دَہ + لی + زوں (و مجہول)]
١ - چوکھٹ کی دہل کے نیچے اس کا بوجھ سہارنے کے بطور داسہ لگی ہوئی پتھر یا لکڑی کی پٹی۔
"ایک دوسرے سے دور دور کوئی پتھر پر کوئی دروازے کی دہلیز پر کوئی کھڑے ہو کر شیو کر رہے تھے۔"      ( ١٩٨١ء، سفر در سفر، ٧٠ )
٢ - دروازے کے سامنے کی آمد و رفت کی جگہ؛ ڈیوڑھی، راہ داری۔
"اس نے اپنے گھر کے دروازے کی دہلیز پر ایک ایسا تعویذ باندھ رکھا ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھوت گھر میں نہیں جا سکتا۔"      ( ١٩٨٣ء، جاپانی لوک کتھائیں، ٣٩ )
٣ - [ مجازا ]  مقام، جگہ، ٹھکانہ؛ حد۔
"یہیں بیٹھے بیٹھے بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ گئی۔"      ( ١٩٨٥ء، ایمرجنسی، ٦٥ )
٤ - باب، ابتدا، شروعات۔
"فلسفی لغو . باتیں کرتا ہے تو عقل دہلیز کے باہر رہ جاتی ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٢:٣ )
٥ - [ مجازا ]  سہارا، تعارفی راستہ۔
"جدہ کے تار گھر کو برطانیہ کے داخلہ کی دہلیز جلد بنایا جانے والا ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، مسلۂ حجاز، ١٢٤ )
٦ - [ نفسیات ]  احضاری کیفیت، ابتدائی حد۔
"تمثال احضاری سلسلہ ۔ اولٰی سلسلہ کے تغیرات سے آزاد ہوکر دہلیز کے شعور سے اوپر نمودار ہو جائے۔"      ( ١٩٣١ء، نفسیاتی اصول (ترجمہ)، ٢٤٧ )
٧ - [ حیوانیات ]  کان کے اندرونی چکر کے بیچ کا خانہ جہاں سے سماعت کے فعل کی ابتدا ہوتی ہے، تعارفی حد۔
"کان کا خاص حصہ فشائی تیھ ہے . تیھ دو حصوں پر مشتمل ہے دہلیز اور نیم دائری کنالیں، دہلیز کے دو حصے ہیں۔"      ( ١٩٤٩ء، ابتدائی حیوانیات (ترجمہ)، ١٠٢ )
٨ - [ احشائیات ]  ایسا خانہ جو اور خانوں سے مُتّصِل ہوتا ہے۔ (Vestibale)
"ہر شعیہ ایک نسبتاً چوڑی فضا کے اندر وا ہو کر ختم ہو جاتا ہے جسے دہلیز کہتے ہیں۔"      ( ١٩٣٤ء، احشائیات (ترجمہ)، ٤٩ )
  • threshold;  portico
  • entrance hall
  • vestibule