ڈیوڑھی

( ڈیوْڑھی )
{ ڈیوْ (ی مجہول) + ڑھی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ جو اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ اپنے اصل مفہوم میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو "کلیاتِ سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکان ( مؤنث - واحد )
جمع   : ڈیوْڑِھیاں [ڈیوْ (ی مجہول) +ڑِھیاں]
جمع غیر ندائی   : ڈیوْڑِھیوں [ڈیوْ (ی مجہول) + ڑِھیوں]
١ - مکان کا پٹا ہوا دروازہ، گھر میں آنے جانے کا مسقف دروازہ۔
"ڈیوڑھی پہ دستک دی، ڈیوڑھی پر کوئی نہیں تھا۔"      ( ١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ٢٤ )
٢ - امراء کے محلات یا مکانات کا احاطہ جو چاروں طرف سے محدود اور اس میں آمد و رفت کے لیے پھاٹک ہو: مکان کا وہ حصہ جو بیرونی دروازے سے ملحق ہو۔
"کچے پکے رستے، ٹیڑھی میڑھی گلیاں، ڈیوڑھیاں، در دریچے، منڈیریں، ممٹیاں، آنگن . سب کچھ کتنا منور تھا۔"      ( ١٩٨٥ء، خیمے سے دور، ٨٨ )
٣ - رئیسوں یا امیروں کے بال کی آمد و رفت، باریابی، دربار داری۔
"راجہ دھیان سنگھ کو ڈیوڑھی عطا ہوئی بعہدِ سکھاں یہ عہدہ بڑا معزز تھا۔"      ( ١٨٦٤ء، تحقیقاتِ چشتی، ١٦٥ )
٤ - [ کیایتا ]  محل، بارگاہ، دربار۔
"واقعہ یہ ہے کہ ١٩٦٢ء میں وہ بھی جواہر لال کی ڈیوڑھی پر جواہر لال کی پالیسوں پر عمل پیرا رہنے کے لیے قربانی کا بکرا بنا دئیے گئے۔"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٥٦٦ )