عنصر

( عَنْصَر )
{ عَن + صَر }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : عَناصِر [عَنا + صِر]
١ - جوہر (ہر شے کا)، اصل، بنیاد، مفرد شے، مرکب شے کا ہر جزو، عناصر اربعہ یعنی آگ، پانی، ہوا، مٹی میں سے ہر ایک۔
"اس کے سبب سے عنصر یعنی مفرد چیزیں ایک دوسرے سے ملتی اور مرکب چیزیں بناتی ہیں۔"    ( ١٩٢٨ء، سلیم (پانی پتی)، مضامین، ٣٥:٣ )
٢ - (کیمیا وہ شے جسے کیمیائی ذریعے سے سادہ تر اجزا میں توڑا نہ جاسکے، جس میں تمام ایٹموں کا ایٹمی نمبر ایک ہی ہو (عنصروں کی تعداد سو (100) کے قریب ہے)۔
"صرف ہاہیڈروجن ہی ایک ایسا عنصر (Element) ہے جو دوسرے عناصر سے اس لیے مختلف ہے کہ اس کے ایٹم میں صرف ایک الیکٹرون اور ایک پروٹون ہوتا ہے۔"    ( ١٩٨٠ء، ٹرانسسٹرز، ٣:٥ )
٣ - جزو، حصہ۔
"سلام کی نظموں میں سوزوگداز کا عنصر ذرا کم پایا جاتا ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، ٹیم رخ، ٢١٣ )
٤ - رکن
"اب ہم ان کی افسانہ نگاری کو لیتے ہیں جو ان کے ادب کا اہم ترین عنصر ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، نایاب ہیں ہم، ١٠٨ )
٥ - مادہ
"نفاق کی چار نشانیاں ہیں جس میں ان میں سے ایک بھی پائی جائے اس میں اتنا نفاق کا عنصر موجود ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٨٨٧:٤ )
٦ - آتش اور آب اور خاک اور باد کو کہتے ہیں جنکو امہات سفلی بھی کہتے ہیں، واضع ہو کہ ظہور عنصر آتش کا اسم قابض سے ہے اور باد کا اسم می سے اور آب کا اسم محی سے اور خاک کا اسم ممیت سے ہے۔ (مصباح التعرف)
  • origin;  a primary element