پروانہ[1]

( پَرْوانَہ[1] )
{ پَر + وا + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اصل مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٠٣ کو "نوسرہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
واحد غیر ندائی   : پَرْوانے [پَر + وا + نے]
جمع   : پَرْوانے [پَر + وا + نے]
جمع ندائی   : پَرْوانو [پَر وا + نو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پَرْوانوں [پَر + وا + نوں (و مجہول)]
١ - پردار کیڑا جو شمع پر گرتا ہے، بُھنگا، پتنگا۔
 عشق و جنوں کی آگ میں لڑ کر عاشق اور معشوق تھے ایک جل بجھنا انجام تھا سب کا شمع تھی یا پروانہ تھا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦١ )
٢ - [ مجازا ]  عاشق، شیفتہ، شیدائی۔
 زر کا پروانہ غرت کا طلبگار بھی ہے جوش صاحب وہ منافق بھی ہے عیار بھی ہے      ( ١٩٤٧ء، سنبل و سلاسل، ١٤٨ )
٣ - ایک چھوٹا جانور جس کے متعلق مشہور ہے کہ شیر کے آگے چیختا ہوا چلتا ہے تاکہ دوسرے جانور شیر کی موجودگی سے خبردار ہوکے چھپ جائیں، یہ شیر کا پس خوردہ کھاتا ہے، صوبہ بہار میں اس کو پھکساری کہتے ہیں، (ماخوذ: مہذب اللغات، 23:3)۔
٤ - خدمت گار، نوکر۔
"تین اشخاص بطور خدمت گار کے ہوتے ہیں جن کو پروانہ کہتے ہیں۔"      ( ١٨٨١ء، کشاف اسرار المشائخ، ٢١١ )
٥ - لشکر کا پیشرو۔ (اسٹین گاس: نوراللغات، 85:2)۔
٦ - تصویر میں اس کے کسی حصے پرچھائیں یا سایہ جو باریک یا موٹے خطوں یا رنگ کے اتار چڑھاؤ سے ظاہر کیا جاتا ہے جس سے وہ حصہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے، عکس، جھرمٹ، پرچھائیں، شیڈ۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 169:4)۔
  • a moth;  a butterfly;  a lover