عاشق

( عاشِق )
{ عا + شِق }
( عربی )

تفصیلات


عشق  عاشِق

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٥٠٣ء "نوسرہار (اردو ادب)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : عاشِقَہ [عا + شِقَہ]
واحد ندائی   : عاشِقو [عا + شِقو (و مجہول)]
جمع   : عُشّاق [عُش + شاق]
جمع استثنائی   : عاشِقاں [عا + شِقاں]
جمع غیر ندائی   : عاشِقوں [عا + شِقوں (و مجہول)]
١ - عشق کرنے والا، فریفتہ، شیدا۔
"غم میں ڈوب کر موزوں طبیعت والے نامراد عاشق نے . شاہکار تصنیف کیا۔"      ( ١٩٨٨ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، ١١ )
٢ - بہت پسند کرنے والا، دل سے قدر کرنے والا، قدردان۔
 جب تک بہار رہتی ہے رہتا ہے مست تو عاشق ہیں میر ہم تو تری عقل و ہوش کے      ( ١٨١٠ء، میر (نوراللغات) )
٣ - [ تصوف ]  عشق حقیقی میں غرق، جس کو خودی کا خیال نہ ہو، عارفِ کامل۔
"جو شخص گم کردہ قلب نہ ہو عاشق نہ ہو گا اس لئے کہ جو شخص دل سے خبر رکھے گا یا دل دل رکھے وہ عاشق نہیں۔"      ( ١٩٢١ء، مصباح التعرف، ١٧٧ )
٤ - وہ پرزہ جو گھنڈی کی طرح حلقہ میں ڈالا جاتا ہے۔ (ماخوذ : نوراللغات)
٥ - طنزاً بے فکرا، بے پروا، غافل، مدہوش، دین و دنیا سے بے خبر۔ (مہذب اللغات)
١ - عاشق ہونا
فریفتہ ہونا، محبت میں مبتلا ہونا، عشق کرنا۔ ہم تو اک نام کے عاشق ہیں جیا کرتے ہیں ہو خفا شوق سے گر نام کسی کا ہے یہی      ( ١٩٨١ء، حرفِ دل رس، ١٤٣ )