پرداز

( پَرْداز )
{ پَر + داز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم نیز لاحقہ فاعل کے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٠٢ء کو "باغ و بہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - تمہید، اٹھان، ابتدا۔
 ہوشیار اے شوق غافل ہوشیار چشم الفت جور کا پرواز ہے      ( ١٩٣٦ء، معارف جمیل، ١٣٨ )
٢ - رنگ، ڈھنگ، طور طریقہ، انداز۔
"ان کے گھر کی پرداز اختیار کرنے سے ہمارے گھر کا کیا فائدہ ہوگا۔"      ( ١٩١٧ء، مراری دادا، ٢٥ )
٣ - آراستگی، جلا، تصویر کے خدوخال۔
 سو حسن کی تصویریں لکھیں کلک قضا نے چہرہ نہ کوئی پر ترے پرداز کا پایا      ( ١٨٢٤ء، مصحفی (نور اللغات، ٧٧:٢) )
٤ - تصویر کا چوکٹھا، باریک کام جو کسی تصویر یا نقش کے گرد کیا کرتے ہیں، نقش و نگار۔
"جلی آئینے قدم قدم ایسے لگے اور ان کے پردازوں میں ہیرے اور موتی جڑے ہوئے تھے۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ٨٨ )
٥ - مرکبات میں جزو دوم کے طور پر مستعمل، بمعنی کرنے والا، ڈھانپنے والا۔
 بنا کر پھر اے چہرے پرداز عالم مرا نقشِ ہستی مٹانے سے حاصل      ( ١٩٠٠ء، نظم دل افروز، ١٩٥ )
  • اِبْتَدا
  • طور
  • performing
  • accomplishing
  • finishing
  • completing;  finish
  • accomplishment
  • perfection;  frame or setting (of a picture)