لکھا

( لِکّھا )
{ لِکھ + کھا }
( سنسکرت )

تفصیلات


لکھنا  لِکّھا

سنسکرت سے ماخوذ فعل 'لکھنا' کا ماضی 'لکھا' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : لِکّھے [لِکھ + کھے]
جمع   : لِکّھے [لِکھ + کھے]
جمع ندائی   : لِکّھوں [لِکھ + کھوں (و مجہول)]
١ - رقم کرنا، تحریر کرنا، قلمبند کرنا، تحریر میں لانا، تراکیب میں مستعمل۔
 نام بے شیر کا جس وقت لکھا صغرا نے رکھ کے خط ہاتھ سے دل تھام لیا صغرا نے      ( ١٨٩١ء، تعشق (مہذب اللغات) )
٢ - لکھا ہوا کی جگہ، نوشتہ، رقم زدہ، تحریر شدہ، مرقوم۔
 پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٥٩ )
٣ - حکم قضا و قدر، سرنوشت، تقدیر، وہ امر جسے بہر حال ہونا ہے۔
 برے لکھے کو میرے بے نظیر اچھا کرے مولا نہیں تو کوئی پیٹے گا کہاں تک ان ھیروں کو      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ١٤٨ )
٤ - حالت، حال، گت۔ (فرہنگ آصفیہ)۔
٥ - خط، دستخط، تحریر۔
 کہ سکتے ہیں لکھے کو بھلا اپنے برا ہم سن کر نہ کہے دوست یہ مکتوب ہے میرا      ( ١٨٨٨ء، مضمو نہائے دلکش، ٢٥ )
  • مَکْتُوبَہ
  • written;  what has been (or is) written;  a writing
  • written document;  decree (of fate);  fate
  • destiny
  • predestination