کشیدگی

( کَشِیدَگی )
{ کَشی + دَگی }
( فارسی )

تفصیلات


کَشِیْد  کَشِیدَگی

فارسی زبان سے ماخوذ مصدر 'کشیدن' کے صیغہ حالیہ تمام 'کشیدہ' سے 'ہ' حذف کر کے 'گی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے اسم 'کشیدگی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٣٦ء کو "ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : کَشِیدَگِیاں [کَشی + دَگِیاں]
جمع غیر ندائی   : کَشِیدَگِیوں [کَشی + دَگِیوں (واؤ مجہول)]
١ - کھچاوٹ، شکر رنجی، ملال۔
"برنی صاحب نے علامہ کو خط لکھا اور کشیدگی تعلقات کا ذکر کیا۔"      ( ١٩٨٧ء، اردو، کراچی، جون، ٤٦ )
٢ - کھینچاتانی، جھگڑا، تنازع۔
"فیکلٹی کی سطح پر کوئی سیاسی کشیدگی یا پرنسپل اور سٹاف کے ساتھ چپقلش نہیں تھی۔"      ( ١٩٨٢ء، میرے لوگ زندہ رہیں گے، ٨٩ )
٣ - بے چینی، کشا کشی، اضطراب، فشار، دباؤ، اعصابی تناؤ۔
"شہر میں کرفیو لگا ہوا ہے سخت کشیدگی ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، زمین اور فلک اور، ١٠٢ )
٤ - درازی، لمبائی (قد وغیرہ کی)۔
"یہ بھی غلط ہے کہ قدو قامت و کشیدگی وقار کے لیے ضروری ہے۔"      ( ١٨٨٠ء، تہذیب الاخلاق، ٧٩ )