جو رنجشیں تھیں، جو دل میں غبار تھا نہ گیا کہ اب کی بار گلے مِل کے بھی گلہ نہ گیا
( ١٩٧٩ء، جاناں جاناں، ٣٠ )
٢ - صدمہ، تکلیف، غم، دلگیری۔
"لفظ اور معنی کے الجھاؤ میں رنجش کے کسیلے ذائقوں سے ہم تعلق کی سبھی سطحوں سے زہرِ بدگمانی، بے یقینی اور سیاہ بختی کی کالک مَل رہے تھے۔"
( ١٩٨١ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ٩١ )
٣ - بیماری، درد، مرض۔
"طرح بہ طرح کی رنجشیں جو نسوں کی تخریش اور خون کے غلبے سبب سے اس حمل کے ایام میں ہوئی ہیں سو ان کا ویسا ہی علاج کرنا۔"
( ١٩٤٨ء، اصولِ فن قبالت، ٥١ )
٤ - اختلاف، کشیدگی، بگاڑ۔
جاگتی آنکھ بولتا ہوا خواب اک ہنسی لاکھ رنجشوں کا جواب
( ١٩٥٧ء، نبضِ دوراں، ٨٢ )
٥ - تکرار، بحث۔
"نہیں معلوم میں نے آج صبح کو کس کا مونہہ دیکھا ہے کہ ابھی منجو صاحب سے ایک خفیف سی بات پر رنجش ہوتے ہوتے رہ گئی۔"
( ١٩٢٩ء، بہارعیش، ٩ )