رنجش

( رَنْجِش )
{ رَن + جِش }
( فارسی )

تفصیلات


رَنْجِیْدن  رَنْج  رَنْجِش

فارسی زبان میں رنجیدن مصدر سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا سب سے پہلے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : رَنْجِشیں [رَن + جِشیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : رَنْجِشوں [رَن + جِشوں (و مجہول)]
١ - خفگی، آزردگی، ناخوشی، کدورت، عداوت۔
 جو رنجشیں تھیں، جو دل میں غبار تھا نہ گیا کہ اب کی بار گلے مِل کے بھی گلہ نہ گیا      ( ١٩٧٩ء، جاناں جاناں، ٣٠ )
٢ - صدمہ، تکلیف، غم، دلگیری۔
"لفظ اور معنی کے الجھاؤ میں رنجش کے کسیلے ذائقوں سے ہم تعلق کی سبھی سطحوں سے زہرِ بدگمانی، بے یقینی اور سیاہ بختی کی کالک مَل رہے تھے۔"      ( ١٩٨١ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ٩١ )
٣ - بیماری، درد، مرض۔
"طرح بہ طرح کی رنجشیں جو نسوں کی تخریش اور خون کے غلبے سبب سے اس حمل کے ایام میں ہوئی ہیں سو ان کا ویسا ہی علاج کرنا۔"      ( ١٩٤٨ء، اصولِ فن قبالت، ٥١ )
٤ - اختلاف، کشیدگی، بگاڑ۔
 جاگتی آنکھ بولتا ہوا خواب اک ہنسی لاکھ رنجشوں کا جواب      ( ١٩٥٧ء، نبضِ دوراں، ٨٢ )
٥ - تکرار، بحث۔
"نہیں معلوم میں نے آج صبح کو کس کا مونہہ دیکھا ہے کہ ابھی منجو صاحب سے ایک خفیف سی بات پر رنجش ہوتے ہوتے رہ گئی۔"      ( ١٩٢٩ء، بہارعیش، ٩ )
  • grief;  indignation;  unpleasantness
  • coolness