کل

( کَل )
{ کَل }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بیک وقت بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٧٤ء کو "کلیاتِ علی عادل شاہ ثانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف زمان ( مؤنث - واحد )
١ - گزرا ہوا دن، آج سے پہلے کا دن، امس۔
"کل میں نے اپنے ہاتھ سے تمہارے لیے کلیجی پکائی تھی۔"    ( ١٩٨٢ء، پرایا گھر، ٨٣ )
٢ - ماضی میں، زمانۂ قریب میں، تھوڑے ہی دن پہلے۔
"یہ ترکی غلام جن کو کل تک لوگ بازاروں میں بکتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔"    ( ١٩١٤ء، مقالات شبلی، ٦٠:٣ )
٣ - آج کے بعد کا دن، اگلا دن جو آنے والا ہو۔
"وہ ابھی جا رہے ہیں پلین سے۔۔۔ کل شام واپس آئیں گے۔"    ( ١٩٨٢ء، پرایا گھر، ١١٥ )
٤ - (مستقبل قریب میں) زمانہ قریب میں۔
"جہاں تک ہو سکے بیٹوں کو پڑھائیں جو کل کو ہمارے کام بھی آئے۔"    ( ١٨٧٤ء، مجالس النساء، ٦:١ )
٥ - روزِ قیامت۔
 رحمت کا تری بیاں کیا ہے سب سے کل سامنے سب کے مجھ کو جھوٹا نہ بنا      ( ١٩٥٥ء، رباعیاتِ امجد، ٤:٣ )
  • the morrow
  • to-morrow;  yesterday