کشائش

( کُشائِش )
{ کُشا + اِش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ مصدر 'کشودن' کا حاصل مصدر ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - کھولنا، کشادگی، وسعت، فراخی۔
"جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں کشائش کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔"      ( ١٩٥٣ء، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر، ١٢١ )
٢ - [ کنایۃ ]  مہم سر کرنا، فتح، جیت۔
"وہ پہلوان دیو پیکر . سپر فولادی چہرے کی پناہ کیے ہم تن قلعہ کی کشایش میں مصروف ہے۔"      ( ١٨٩٠ء، بوستان خیال، ٨٥٨:٦ )
٣ - خوشحالی، آسودگی، فارغ البانی۔
"پھر دوگنا کردے اللہ اس کو کئی گنا اور اللہ ہی تنگی کر دیتا ہے وہی کشائش کرتا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔"      ( ١٩٦٩ء، معارف القرآن، ٥٤٥:١ )
  • opening
  • loosening
  • solving
  • breaking (a fast);  expansion
  • enlargement;  an opening
  • aperture;  clearness
  • serenity
  • cheerfulness
  • hilarity
  • gaiety