کفالت

( کِفالَت )
{ کِفا + لَت }
( عربی )

تفصیلات


کفل  کِفالَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٥٥ء، کو "مرغوب القلوب فی معراج المحبوب" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : کِفالَتیں [کِفا + لَتیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : کِفالَتوں [کِفا + لَتوں (واؤ مجہول)]
١ - اپنے ذمّے کوئی بار یا کام لینا، ذمہ داری وکالت، (عموماً) کفیل ہونا، نان نفقہ، خرچ وغیرہ کا۔
"کارکنوں کی گرفتاری کی صورت میں ان کے متعلقین کی کفالت کے لیے فنڈز نہیں تھے۔"      ( ١٩٨٦ء، سندھ کا مقدمہ، ٦٦ )
٢ - شے مکفولہ یا مرہونہ، جو چیز رہن رکھی جائے، جوشے گروی رکھی جائے نیز تحفظ۔ (پلیٹس)۔
٣ - ایک چیز کو دوسری چیز سے ملا دینا۔ (نورالہدایہ، 51:3)
٤ - [ شرع ]  ملانا، ذمہ کفیل سے طرف ذمہ اصیل کے مطالبہ میں۔ (نورالہدایہ، 51:3)
٥ - ضمانت، زر ضمانت، سیکورٹی۔
"پاکستان میں ہر بیمہ کمپنی کا حکومتی بانڈ اور منظورہ کفالتیں خریدنے . کا لزوم ہے۔"      ( ١٩٦٤ء، بیمۂ حیات، ٦٧ )
  • surety
  • security
  • bail;  responsibility;  caution;  a pledge
  • pawn.