پھندا

( پھَنْدا )
{ پھَن + دا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پاش+بندھ  پھَنْدا

سنسکرت الاصل دو الفاظ 'پاش + بندھ' سے ماخوذ پھندا، اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پھَنْدے [پھَن + دے]
جمع   : پھَنْدے [پھَن + دے]
جمع غیر ندائی   : پھَنْدوں [پھَن + دوں (و مجہول)]
١ - (رسی یا ریشم وغیرہ کا) حلقہ، پھاند، پھانسا۔
 بنا لیا اُس نے اپنا قیدی لگا کے عہد و وفا کا پھندا رسن ہے ہاتھوں میں بے بسی کی گلے میں صبر و رضا کا پھندا    ( ١٩٥١ء، آرزو، سازِحیات، ٣ )
٢ - گرہ، ٹانکا، حلقہ، بنائی کا خانہ۔
"سولہ انچ کی چوڑی پٹی میں اسی ہزار ٹانکے یا پھندے شمار کئے گئے تھے۔"    ( ١٩١٦ء، گہوارہ تمدن، ١٣٥ )
٣ - گھّی جو بال ریشم یا دھاگے میں پڑ جاتی ہے، گلجھڑی۔
"پھندا ایسا پڑ گیا ہے کہ اب ڈور سلجھنا مشکل ہے۔"      ( ١٩٦٢ء، مہذب اللغات )
٤ - اُچھُّو، کسی چیز کے گلے میں اٹکنے کی حالت۔
"ایک دفعہ ہی حلق میں نہ انڈیل لیجئے گا پھندا پڑ جائے گا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٦٠:٦ )
٥ - تنگی، دشواری، دقت، کسی کام میں پیدا ہونے والی الجھن۔
"میں خود بھی اخبار نویسی سے کچھ واقف ہوں، میں اس کے فائدوں اور پھندوں کو جانتا ہوں۔"    ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ٢٥٦ )
٦ - فریب، دم۔
 دیکھتا ہے اک عمر سے بندا بس یہی باتیں اور یہی پھندا    ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٣٢٣:١ )
٧ - قابو، قید، بس، پنجہ، پابندی۔
 گیسوؤں والوں کے پھندے میں نہ ڈالے تقدیر کہ نکلتا ہی نہیں دل جو پھنسا ہوتا ہے    ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ١٩٣ )
٨ - زیرِ اثر، متاثر، گرفتہ۔
"انگریزی زبان مدت تک لاطینی اور یونانی ادب کے پھندے میں گرفتار رہی۔"    ( ١٩٢٨ء، افاداتِ سلیم، ٢١٠ )
٩ - [ جلد سازی ]  ایک خاص قسم کی سلائی جس سے کتاب مضبوط رہتی ہے۔
"جزوں کی موزوہنیت کے لحاظ سے اس کی سلائی پھندے والی یا گوم کی شکل کی کرے۔"      ( ١٩٦١ء، انتظام کتب خانہ، ٧٠ )
١٠ - [ برقیات ]  کاغذ کی بنی ہوئی وہ پونگی جس کو برقی تجربات میں ایک تاگے سے باندھ کر لگا دیتے ہیں۔
"ایک کاغذ کے ٹکڑے کا اس طور پر پھندا سا بنا کر ایک مضبوط دھاگے سے لٹکا دیں۔"      ( ١٨٧٣ء، اخبار مفیدعام، ١٥ جولائی، ٣ )
  • noose
  • net
  • snare
  • trap
  • gin;  grasp
  • gripe
  • toils
  • clutches;  perplexity
  • difficulty;  maze.