لڑکی

( لَڑْکی )
{ لَڑْ + کی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم 'لڑکا' کی اردو میں تانیث 'لڑکی' بطور اسم استعمال ہوتی ہے۔ ١٧٦٩ء کو "آخرگشت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : لَڑْکِیاں [لَڑ + کِیاں]
جمع غیر ندائی   : لَڑْکِیوں [لَڑ + کِیوں (و مجہول)]
١ - چھوکری، بچی۔
"شکر ہے، اکیلی لڑکی ہلکان ہوئی جارہی تھی، رانی دلہن نے کہا۔"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٤٠٤ )
٢ - بیٹی، دختر۔
"بٹو باجی نے ان کی لڑکی کو اس کے بچپن کے بعد اب دیکھا۔"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ١٧ )
٣ - عروس، دلہن (شادی یا عروسی کے حوالے سے)۔
"وکی بھی کتنے ہوش مند ہو گئے، مقطع چقطع "لڑکی" کے بزرگ اور سرپرست، ذمے دار پابند وضع . انتظامات کے احکام صادر کریں گے۔"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٤٠٥ )
٤ - کنواری، دوشیزہ، بن بیاہی، باکرہ۔
"وہ بھولی سی پہاڑی لڑکی، خاموش، ذہین، بردباد۔"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٣٩٤ )
٥ - نادان، ناسمجھ، ناتجربہ کار، کم عمر۔
"دائی چلانے لگی کہ اے لڑکی یہ دماغ کا وقت نہیں ہے ملنے جلنے کا وقت ہے۔"      ( ١٨٠٠ء، قصہ گل و ہرمز، ٩٩ )
  • چَھوری
  • لَوْنڈی
  • کَنْواری