ڈولا

( ڈولا )
{ ڈو (و مجہول) + لا }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان کے لفظ کے 'ڈول' کے آخر پر 'ا' زائد لگانے سے بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٥٠٣ء میں "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ڈولے [ڈو (و مجہول) + لے]
جمع   : ڈولے [ڈو (و مجہول) + لے]
جمع غیر ندائی   : ڈولوں [ڈو (و مجہول) + لوں (و مجہول)]
١ - پالکی جس میں بیشتر عروس کو رُخصت کرتے ہیں، میانہ۔
"جب ڈولا چلا گیا تو وہ پیڑھ پر چڑھ گیا اور اُسے دیکھتا رہا۔"      ( ١٩٧٥ء، تاریخِ ادبِ اردو، ٢، ٧٩٠:٢ )
٢ - بیماروں کو اٹھا کر لے جانے والی سواری جو چارپائی کی قسم کی ہوتی ہے۔
"ملک صالح نے دمشق سے ایک ڈولے میں بیٹھ کر یہ سبب شدتِ مرض کے کُوچ کیا۔"      ( ١٨٤٧ء، تاریخ ابوالفدا (ترجمہ)، ٥٥١:٢ )
٣ - وہ عورت جو بادشاہوں یا بڑے آدمیوں کو بطور نذر پیش کی جاتی ہے اس سے نکاح نہیں ہوتا تھا اور پہلی بیاہتا بیوی سے اس کا درجہ کم ہوتا تھا، خواص، لونڈی۔
"راجہ بھاگ کر کوہستان میں روپوش ہوا بارد گر بذریعہ ایلچی معافی مانگی اور لڑکی بطریقِ ڈولا بادشاہ کی خدمت میں بھیجی۔"      ( ١٩٠٢ء، مراتِ احمدی، ٢٤ )
٤ - میت کو اُٹھانے والا تخت یا پلنگ، جنازے کی چارپائی۔
 علی اور فاطمہ کرتے ہیں دونوں آج زاری بھی حسن کا اور حسین کا ڈولا لیا یا چگ پو خواری بھی      ( ١٦٧٢ء، دیوانِ عبداللہ قطب شاہ، ١١٥ )
٥ - جھولا
"ہر گھر کے ساتھ ایک باغ یا چمن ہوتا تھا . پالتو پرندوں کے پنجرے اور ڈولا یا جھولا ہوتا تھا۔"      ( ١٩٧٢ء، ہمارا قدیم سماج، ١٧٦ )
  • سُکْھپال
  • چوپَہْلا
  • مَحافَہ
  • عورَت
  • دُلْہَن