بر سے نہ اس ترنگ سے بادل اساڑھ کے قربان ذوالفقار تری گھاٹ باڑھ کے
( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٤٦٥:٢ )
٢ - لہر، موج، جذبہ، جوش طبع، نشے کی حرکت۔
نہ بدلی ہے نہ بدلے گی ترنگ اپنی طبعیت کی دکھائے گا کہاں تک آسماں نیر نگیاں اپنی
( ١٩٢٦ء، چکبست، صبح وطن، ١٣٠ )
٣ - دھیان، خیال، تصور۔
"اس عجیب اور خلافت معمول مقبرے کا نقشہ یا تو بنانے والے بادشاہ کی محض ترنگ تھا یا کسی بیرونی ملک سے لایا گیا ہو گا۔"
( ١٩٣٢ء، اسلامی فن تعمیر، ١٤٨ )
٤ - تعلی، شیخی، غرور، گھمنڈ۔
"ایک روز بادشاہ نے غرور میں آکر فرمایا کہ میں نے جو تیر مارا تو وہ تیر ہرن کے کھر کو توڑ کر سر کو پھوڑ دم گزے سے نکل گیا۔"
( ١٩٢٨ء، باقر علی، کانا باتی، ٣١ )
٥ - دھن
"اسی ترنگ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ کرایہ کی پالکی گاڑی منگوا کر سیدھے وحیدن کے یہاں پہنچے۔"
( ١٩٣٤ء، انجام عیش، ٣٨ )