دیوار

( دِیوار )
{ دی + وار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم نیز شاذ بطور صفت استعمال ہوتا ہے اردو میں سب سے پہلے ١٦٧٩ء کو "دیوان سلطان شاہ ثانی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - [ کنایۃ ]  نابینا، اندھا۔
 بے نور تو نے آنکھوں کو اے یار کر دیا پردے کے واسطے مجھے دیوار کر دیا      ( ١٨٥٢ء، دیوانِ برق، ٦٤ )
٢ - حیران، متحیر۔ (جامع اللغات)۔
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : دِیواریں [دی + وا + رِیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : دِیواروں [دی + وا + روں (و مجہول)]
١ - مٹی کی بنی ہوئی یا اینٹ پتھر وغیرہ کی گارے یا مسالے سے چنی ہوئی اوٹ یا پردہ۔
 دیوار پر بیل چڑھ رہی تھی خوشبو کی ندی کفارے دن تھے      ( ١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ١٠ )
٢ - [ نباتیات ] کسی پھل یا بیج کے اوپر کا غِلاف۔
"اس پھل کی دیوار (گرد ثمرہ) پتلی ہوتی اور بیج کے پوست سے چسپاں رہتی ہے۔"    ( ١٩٦٢ء، مبادی نباتیات، ١٥ )
٣ - [ حیاتیات ] اعضائے جسمانی پر کھال کا غلاف۔
"ان کے جسم کی دیوار تین پرتوں پر مشتمل ہوتی ہے اس لیے انہیں تین پرتوں والے (Tripoloblastic) کہتے ہیں۔"    ( ١٩٨٥ء، حیاتیات، ١١١ )
٤ - اندرونی سطح۔
"معدہ کی اندورنی دیواروں میں طولی شکنیں پائی جاتی ہیں۔"    ( ١٩٨١ء، اساسی حیوانیات، ٨٦ )
٥ - [ مجازا ]  آڑ، روک، رکاوٹ۔
"دنیا کی مصیبت خدا اور انسان کے بیچ میں دیوار۔"      ( ١٩٠٩ء، خوبصورت بلا، ٢ )
٦ - اطراف، بازو۔
"اولیا نے ایک ہاتھ سے کس کر گاڑی کی دیوار تھامی اور دوسرے ہاتھ سے کوئی بھاری بکس پکڑ لیا۔"      ( ١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ٩٣ )
٧ - [ عورت ]  انگیا کے اور اس کی سلائی کے اصطلاحی نام میں سے ایک، انگیا کا پان، دوٹکڑوں میں سب سے بڑا ٹکڑا۔
 جھانک کر انگیا کی دیوار سے بنگلے کی بہار گھاٹ پر آج اتر آیا ہے پٹھا کیسا      ( ١٩٢١ء، دیوانِ ریختی، ١٨ )
٨ - ناک کا بانسا، چٹان یا پہاڑ کا سیدھا پہلو۔ (جامع اللغات)۔