افق

( اُفُق )
{ اُفُق }
( عربی )

تفصیلات


افق  اُفُق

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اپنے اصل مفہوم میں اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٣٧ء کو "ستۂ شمسیہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( واحد )
جمع   : آفاق [آ + فاق]
١ - آسمان کا کنارہ جو زمین سے ملا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
 دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا، گیا دور گراں خوابی      ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٣٠٣ )
٢ - چاند یا کسی ستارے کے طلوع ہونے کی جگہ، مطلع۔
"ماہ و اختر سب وہی ہیں افق ذرا بدل گیا ہے۔"      ( ١٩٠٩ء، مکاتیب شبلی، ٢٦٣:١ )
٣ - [ ہئیت ]  زمین کے اوپر وہ حد جہاں کشش ثقل سے گرنے والی چیز زاویہ قائمہ بناتی ہے، نقطۂ ارتفاع۔
"خط راہ اس کو کہتے ہیں کہ ہر جسم کے مرکز ثقل سے نکل کر زمین کے مرکز پر پہنچے اور اس صورت میں وہ خط سطح افق پر عمود ہو گا۔"      ( ١٩٣٧ء، ستہ شمیہ، ٧:١ )
٤ - [ تصوف ]  وہ غایت جہاں سلوک مقربین کا تمام ہے اسی کو معراج اور معارج بھی کہتے ہیں، (مصباح التعرف لارباب التصوف، 41)۔
  • Horizon;  a tract or region of the earth;  (poet.) the world